ہاتھ آزاد ہیں

وہ میرا جنون تھا جو سچ ہو گیا ہے

میں نے کئی بار خود کو کسی بہت اونچی عمارت پر ایستادہ پایا

کہ اگلے ہی لمحے میں کود کر خود کا مٹانا چاہتا تھا

میرے ترکش میں تین تیر تھے

مگر چاروں سمتیں میری مخالف تھیں

میں محبت کے نام پر آگ کو چوم لیتا تھا

مگر میرے تیر خالی چلے گئے اور میں پتھر کابن گیا

زمین اور آسمان کے درمیان کالا سورج سفر میں تھا

پھر جانے کیسے سفید بادلوں کا سائبا ن

میرے سر پر آ کر ٹھہر گیا

میرے پیروں پر خوشبو مل دی گئی

اور میرے سینے سے لگ کر کوئی اپنی ڈھڑکنیں

میرے وجود میں اتارے لگا

صدیوں سے بندھے ہاتھ آزاد ہوگئے

اور پہلی بار تم نے مجھے تھام لیا

میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئے

ہم دونوں نے نئے موسموں کی تازہ اور خوبصورت

پوشاکیں پہن لیں اور زندہ ہوگئے

 


 

One response to “ہاتھ آزاد ہیں

Leave a comment