ہم نے سوچا

جب زندگی کے درمیان راستے ختم ہوگئے تو ہم نے سوچا، ایک ایسی رات آراستہ کی جائے، جسکی مشرقی دیوار پر سورج کبھی طلوع نہ ہو۔ خوشبو کی بہتی جھیل میں جب ہم نے اپنے پاؤں رکھے تو چاند اور سورج ہمارے ساتھ تھے۔ پرندوں کی اجلی آوازیں تنہائی کی چادر پر لکھے گم شدہ خوابوں کو زندہ کررہی تھیں اور خوشبو کی جھیل کے کنارے ہماری تنہائی کے زخم سیئے جارہے تھے۔

اس جھیل میں تیرتے ہوئے ہم نے اپنے وجود کو ایک خوبصورت تصویر کے روبرو پایا ، رنگ ہر طرف اڑ رہے تھے ۔ خوشبو کے ساتھ رقص کرتے ہوئے ہم نے اپنے پیاسے جسموں پر نقش رنگوں کی لکیروں کو لباس کی قید سے آزاد کردیا

2 responses to “ہم نے سوچا

  1. پرندوں کی اجلی آوازیں تنہائی کی چادر پر لکھے گم شدہ خوابوں کو زندہ کررہی تھیں اور خوشبو کی جھیل کے کنارے ہماری تنہائی کے زخم سیئے جارہے تھے۔

Leave a comment